طحہ حسام مرزا کراچی میں ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ،اور وہاں انہوں نے ساتھی خواتین طالبات کے پیریڈز کے قدرتی عمل اور ایمرجنسی کے دوران ان کو سینیٹری پیڈز کی عدم دستیاب کا آسان حل نکالا ہے، انھوں نے یونیورسٹی کے لیڈیز واش روم میں ایک ایسی وینڈنگ مشین نصب کی ہے جس سے پیریڈز کے مرحلے سے گزرنے والی طالبات انتہائی کم قیمت پر فوری طورپر سینیٹری پیڈز حاصل کر سکتی ہیں۔
کہنے کو تو یہ ایک عام بات سے لگتی ہے لیکن طحہ حسام مرزا کو اس مشین کو یونیورسٹی میں لگانے، ساتھی طالب علموں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو قائل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ طحہ حسام مرزا کو یونیورسٹی میں سینیٹری پیڈز کی مشین لگانے کا خیال کیوں آیا اور کن مراحل سے گزر کر بالآخر طحہ پیڈز مشین اپنی یونیورسٹی میں لگانے میں کامیاب رہے اس بارے میں طحہ بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی میں اچانک ایک روز ساتھی طالبہ کو پیریڈز شروع ہوگئے اورانھیں فوری طور پر سینیٹری پیڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جسے دیکھ کر انھیں بھی اچھا محسوس نہیں ہوا ۔ طحہ کے مطابق انھوں نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ طالبات کے اس دیرینہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔ جس کے بعد طحہ نے اپنے ایک دوست کے ساتھ یونیورسٹی میں پیڈز کی فراہمی کا ایک انوکھا منصوبہ بنایا اور ایک نجی کمپنی کے تعاون سےایک وینڈنگ مشین خواتین کے واش روم میں نصب کر دی گئی، جس میں سینیٹری پیڈز ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

تاہم طحہ کے اس اقدام سے ہر کوئی خوش نہیں تھا ساتھی مرد طالب علموں نے انھیں مختلف القابات سے پکارنا شروع کردیا لیکن انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ طحہ کے مطابق وہ دوست جو مذاق اڑاتے تھے وہ بھی اس ایشو پر بات کرنا شروع ہوگئے ۔ دوستوں نے بالی ووڈ مووی سے متاثر ہو کر پیڈ مین کہنا شروع کردیا لیکن اس دوران کچھ دوستوں نے ان سے بہت زیادہ تعاون بھی کیا
طحہ کہتے ہیں اس ایشو پر سب سے پہلے انھوں نے اپنے والدین سےکھل کر بات کی، انھیں ابتدا میں بات سمجھنے میں مشکل پیش آئی تاہم وہ بعد میں مان گئے۔ پیڈ مین کے نام سے مشہور ہونے والے طحہ حسام مرزا کہتے ہیں کراچی میں لڑکیوں کے اسکولز اور مزید یونیورسٹیز میں اس طرح کی مشینیں لگانے کا منصوبہ بندی کر رکھی ہے تاہم اس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

طحہ حسام مرزا کہتے ہیں اس ٹاپک کو نارملائز کیا جانا چاہیے۔ پیریڈز کو ایک ٹیبو نہ سمھجھا جائے ۔ اسے حساس موضوع بنانے کے بجائے اس مرحلے میں خواتین کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ طحہ کہتے ہیں یہ تمام تر اقدامات کرنے کا مقصد معاشرے کے عام افراد میں شعور کو اجاگر کرنا تھا کہ اس موضوع پر کھل کر بات ہوسکے۔
بشکریہ: احسان خان ۔ پاکستان