پاکستان میں خواتین وسائل کی کمی کے ساتھ ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے بھی کھیلوں میں پسماندگی کا شکار ہیں ۔
آسٹریلین ہائی کمیشن نے جلال الدین کرکٹ اکیڈمی کے اشتراک سے کراچی میں پانچ روزہ لڑکیوں کے کرکٹ کیمپ کا انعقاد کیا جس کا مقصد بچیوں میں کھیل کو فروغ دینا اور خواتین کو با اختیار بنانے میں عملی قدم اٹھانا تھا ۔
- کیمپ کے شرکاء ، اساتذہ اور کوچز پر امید ہیں کہ اب ملک میں خواتین کے کھیلوں کے اعتبار سے بہتری آرہی ہے ۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جسے پاکستانی دل کے قریب سمجھتے ہیں ، دوسری جانب یہ کرکٹ آسٹریلینز کے بھی پسندیدہ ترین کھیلوں میں شامل ہے ۔ پاکستان میں لڑکیاں جسمانی کھیلوں میں کسی قدر پیچھے تصور کی جاتی ہیں ، جس کی بنیادی وجہ ثقافتی پس منظر کے ساتھ ساتھ سہولیات کا فقدان بھی ہے ۔ آسٹریلین ہائی کمیشن پاکستان میں لڑکیوں کو با اختیار بنانے اور کھیلوں کے شعبے میں نمایاں مقام پر پہنچانے کے لئے عملی اقدامات کر رہا ہے ۔ اس سلسلے میں گذشتہ دوسالوں سے کراچی میں اسکول کی سطح پر کرکٹ کیمپ لگایا جارہا ہے اور جلال الدین کرکٹ اکیڈمی کے اشتراک سے گرلز کرکٹ کپ بھی منعقد ہو رہا ہے ۔
گذشتہ دنوں کراچی میں لگائے گئے ایسے ہی کیمپ کے منتظم اور جلال الدین اکیڈمی کے سربراہ جناب جلال الدین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ اگرچہ آئی سی سی اور پی سی بی کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں خواتین کرکٹ فروغ پائے اور اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے ۔

Source: supplied by Jalal uddin
کیمپ کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے جلال الدین صاحب کا کہنا تھا کہ کراچی میں کرکٹ کے میدان میں بہترین کارکردگی پیش کرنے والے پانچ اسکولوں کی ٹیموں کو پانچ روزہ کیمپ اور اس کے بعد ایک صحت مند مقابلے کے لئے چنا گیا ۔ انہوں نے کہا درحقیقت یہ آسٹریلین ہائی کمیشن کا اقدام تھا جس کے لئے انہوں نے جلال الدین کرکٹ اکیڈمی کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے کہا اگرچہ اب پاکستانی لڑکیوں میں بھی کرکٹ کے حوالے سے دلچسپی دیکھی جا رہی ہے اور بچیاں اس کھیل میں حصہ لینے کی خواہاں ہیں لیکن اب بھی بہت زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔
جناب جلال الدین کاکہنا تھا کہ بچیوں نے جس جوش سے کھیل پیش کیا اور کیمپ سرگرمی کا حصہ بنیں وہ قابل تعریف ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں خواتین کھلاڑیوں کو اتنے منفی رویے اور مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا لیکن اب بھی کوئٹہ ، پشاور یا ملک کے مضافاتی علاقوں میں لڑکیوں کھیلنے کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "پول"چھوٹا ہونے کی وجہ سے قومی سطح پر نیا اور اچھا ٹیلنٹ سامنے آنے میں دیر لگتی ہے

Source: Supplied by Jalal Uddin (JCA)
دوسری طرف گرلز کرکٹ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتان فاریہ حسین کہتی ہیں کہ ایسے عملی اقدامات وقتا فوقتا ہوتے ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نےکہا کہ اکثروالدین یا معاشرے کی طرف سے ثقافتی دباؤکےباعث کچھ لڑکیا ں کھیل میں پیچھے رہ جاتی ہیں لیکن اب حالات میں بہتری آ رہی ہے ۔ کیمپ میں کیا سیکھنے کو ملا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاریہ حسین کا کہنا تھا کہ اسکول اور کیمپ میں جو بنیادی فرق تھا کہ وہ گیند کا تھا اس کے علاوہ دوسرا فائدہ دیگر اسکولوں کی کھلاڑیوں سے ملنا اور ان سے کھیل کر تجربہ حاصل کرنا تھا ۔
فاتح ٹیم کی کوچ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کیمپ کھلاڑی لڑکیوں میں مثبت مقابلہ پیدا کرتے ہیں ۔ انہوں نے قومی ٹیم سے متعلق گفتگو میں کہا کہ اب کھلاڑیوں کو بین الاقوامی تجربہ حاصل ہو رہا ہے اور وہ جتنے زیادہ میچ کھیلیں گی اور گراونڈ میں اتریں گی اتنا ان کو تجربہ وسیع ہوگا اور ان کی "باڈٰ ی لینگویج " میں بہتری آئے گی ۔ کیمپ کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اسکول کی سطح پر بچے اپنے ہی اسپورٹس گراونڈ میں پریکٹس کرتے ہیں جبکہ کیمپ کے دوران اور میچز میں بچیوں نے ایسے گراونڈ میں کھیلا جہاں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی جاتی ہے اس طرح ان کے تجربے میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی ان کو باقاعدہ اصل ماحول میں کرکٹ کھیلنےکا موقع بھی میسر آیا۔
فاتح اسکول کی پرنسپل شاہینہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ کھیل اور جسمانی سرگرمیاں زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر تی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلباء میں کھیلوں کے فروغ کے لئے ہر سال مختلف مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں انہوں نے حوالہ دیتے یوئے بتایا کہ ان کے اسکول کی طالبہ کائنات امتیاز قومی ٹیم کا حصہ بھہ رہی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں عام زندگی کا معمول تبدیل کر کے جسمانی سرگرمیوں کو اہمیت دینا ہوگی ۔ محترمہ شاہینہ نےامید ظاہر کی کہ آنے والے وقت میں مزید بچے بچیاں کھیل کے میدان نام روشن کریں گے ۔