ان شعاوں کو اورورا بورویاھلیس اور اورورا آسٹرالیس یا عام طور پر ناردرن اور سدرن لائٹس کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن یہ معمولی طور پر خاصی کم وقت کے لیے زمین کے باسیوں کو دیکھنے کے لیے ملتی ہیں۔
جنوبی شعائیں عمومی طور پر آسٹریلیا کی جنوبی ریاست تسمانیہ اور پڑوسی ملک نیوزی لینڈ کے پاس آسمان پر دکھائی دیتی ہیں جبکہ شمالی شعائیں کینیڈا اور شمالی یورپ کے ممالک کے پاس۔
تاہم اس مرتبہ مئی کے وسط میں یہ جنوبی شعائیں آسٹریلیا کے دور دراز شمالی کوئنزلینڈ ریاست تک میں دیکھی گئیں جبکہ شمالی شعاوں کے نظارے امریکہ تک میں دیکھے گئے۔
تو آخر ایسا کیوں؟
ماہرین کہتے ہیں کہ اس تمام کا دارومدار نظام شمسی کے اندر موجود تمام چھوٹے ذرات، مقناطیسی فیلڈ اور شمسی موسم سے جڑا ہوا ہے۔
آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات بریڈ ٹکر کہتے ہیں کہ اس سب کا دارومدار سورج کے گردشی محور سے ہے۔
سورج کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ٹھوس نوعیت کا ہے تاہم حقیقت میں یہ مائع طرز کے پلازمہ کا ایک سمندر نما ہے جسے سورج کی مقناطیسی قوت مسلسل گردش میں رکھتی ہے۔
بالکل زمین کی طرح سورج کی بھی کئی تہیں ہیں، اور وقتاً فوقتاً سورج کے شمالی اور جنوبی حصے درمیانی حصے کے برعکس تیزی سے گھومتے ہیں۔
اس پگھلے ہوئے پلازما کی وجہ سے ہونے والی رگڑ چارج شدہ ذرات کو خلا میں پھینکنے کا باعث بن سکتی ہے اور یہی ان اورورا شعاوں کا سبب ہے۔
ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ زمین کی طرح کچھ شمسی طوفان بھی خاصے بڑے اور طاقتور ہوتے ہیں۔
اس شمسی طوفان کے اتنے بڑے ہونے کی وجہ اصل میں اس کے پیمانے اور تعداد سے منسلک ہے جسے کورونل اخراج کہا جاتا ہے۔
اس قسم کا شمسی طوفان سورج کی فضا سے لاکھوں یا اربوں ٹن پلازما کو چیرتا ہے اور انہیں نو ملین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نظام شمسی میں لے جاتا ہے۔
نور روافی کا تعلق جانز ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری سے ہے۔ ان کے بقول گزشتہ دنوں ایسا ہی بڑا طوفان دیکھا گیا۔
خوش قسمتی سے، زمین کی فضا یہاں بسنے والے انسانوں کو اس طوفان سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کے سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی ان دھماکوں کے اثرات کو طرح جذب کر لیتی ہے۔
زمین کے اپنے مقناطیسی میدان ان ذرات کو قطب شمالی اور جنوبی کی طرف موڑتے ہیں، اس لیے خط استوا سے آگے کے علاقوں میں اورورا کو دیکھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ان طوفانوں کے قوی یا کمزور ہونے کا تعلق شمسی نظام سے جڑا ہوا ہے۔
نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے خلائی سائنس دان رابرٹ اسٹین برگ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک خطہ خاص طور پر فعال رہا ہے۔
انتہائی رفتار سے زمین کی طرف بڑھتے ہوئے یہ ذرات ایسی آوازیں پیدا کرتے ہیں جو خوف پھیلا سکتی ہیں۔
تاہم حقیقت میں، زیادہ تر شمسی طوفان اس نظام کی تشکیل کے باعث زمین تک پہنچتے پہنچتے محض روشنیوں کے ایک دلکش نظارے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ زمین سے نظر آنے والے رنگ اس بات پر منحصر ہیں کہ ان سے کون سی گیس خارج ہورہی ہے۔
یونیورسٹی آف ریڈنگ میں خلائی طبیعیات کے پروفیسر، میتھیو اوونس کا کہنا ہے کہ اورورا اسی طرح کام کرتے ہیں جیسے نیون لائٹ کام کرتی ہے۔
اس شاندار نظارے کے ساتھ ساتھ یہ شمسی طوفان کچھ تکنیکی مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
لیکن ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بہت کم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا شمسی طوفان 1859 میں کئی ہفتوں تک جاری رہا اور اسے کیرنگٹن ایونٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جس ٹیلی گراف سسٹم کو درہم برہم کر دیا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس پیمانے کا شمسی طوفان دوبارہ آتا ہے دنیا بھر میں پھیلے بجلی کے گرڈ بند ہوسکتے ہیں، جس سے ہفتوں یا مہینوں تک بلیک آؤٹ ہو سکتا ہے۔
رابرٹ سٹینبرگ کا کہنا ہے کہ NOAA اور آسٹریلیا کے اپنے اسپیس ویدر پریڈیکشن سنٹر جیسے مراکز موجود ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے ہم باخبر اور تیار رہیں۔