پولیس سابق امریکی اسپیکر کے گھر پر حملے کے بعد آسٹریلوی سیاستدانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کر رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں دو برطانوی ارکینِ پارلیمان کے قتل نے بیرون ملک سیاست دانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب آسٹریلیا میں بھی ایسے ہی خدشات پائے جاتے ہیں۔
لبرل سینیٹر جیمز پیٹرسن نے جمہوریت کو لاحق ان خطرات پر تبصرہ کیرتے ہوئے انہیں تشویشناک قرار دیا۔ کوڈ ۱۹ کے عروج کے دوران وفاقی سیاست دانوں کے خلاف مبینہ جارحانہ رویے میں اضافہ ہوا۔
پولیس کو وفاقی انتخابات کے دوران ریکارڈ 82 شکایات شامل موصول ہوئیں جن میں سے دو پر فردِ جرم عائید کی گئی اور 14 شکایات کی جانچ جاری ہے۔
سیکیورٹی کنسلٹنسی فرم انٹیلی جنس رسک کے سربراہ نیل فرگس کہتے ہیں کے دھمکیوں کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ملک کی خفیہ ایجنسی ایسیو نے بار بار خبردار کیا ہے کہ وبائی مرض شدت پسندی مین اضافہ کر رہا ہے،اور اس دوران تنہائی اور سوشل میڈیا ایک زہریلے مرکب کے طور پر کام کرتے رہے ہیں. وکٹوریہ یونیورسٹی سے متشدد انتہا پسندی کی ماہر ڈیبرا اسمتھ اسے جمہوریت پر حملے کے طور پر دیکھتی ہیں۔
کچھ ممبران پارلیمان میں بڑھتی ہوئی ہراسانی اور آن لائن دھمکیوں کے باعث تشویش بڑھی ہے۔ مسٹر پیٹرسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اے ایف پی کو ذیادہ خطرناک پیغامات کی رپورٹ کی ہے۔
نیشنلز لیڈر ڈیوڈ لٹل پروڈ بھی سیاستدانوں کو ہراساں کرنے سے ان پر ہونے والے ذاتی اثرات کو پریشان کُن قرار دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل مارک ڈریفس کا کہنا ہے کہ حکومت کو رپورٹ کا علم ہے لیکن وہ ان کے خلاف حفاظتی انتظامات کی ذمے داری اے ایف پی اور متعلقہ اداروں پر چھوڑ رہے ہیں۔
ایم پیزکی حفاظت کے لیے قائیم خصوصی پولیس ٹاسک فورس کی معیاد مئی کے انتخابات کے بعد ختم ہو گئی تھی۔
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار کی حمایت کرتا ہے لیکن جب یہ آن لائن ہراساں کرنے یا دھمکی دینے کا باعث بنتا ہے تو یہ مجرمانہ فعل کی حد تک پہنچ سکتا ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔