امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن کے تمام تر دعووں اور تردیدی بیانات کے باوجود امریکی صدارتی انتخابات کےاب تک کے غیر حتمی نتائیج سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اگرامریکی عوام کو متحد کرنا ناممکن نہیں تو سخت دشوار ضرور ہوگا۔ ان انتخابات میں معیشیت، کرونا وائریس، نسلی امتیاز، چائینا پالیسی، اور ماحولیات جیسے موضوعات امریکی انتخابات کا بڑا موضوع رہے ہیں ۔ ایس بی ایس اردو کے مباحثی فورم کے شرکا نےامریکی انتخابی نتائیج پر آسٹریلیا ، پاکستان، بھارت ، چین اور مشرقِ وسطیٰ پر پڑنے والے اثرات کا احاطہ کیا۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی پروفیسر سمینہ یاسمین کا کہنا تھا کہ امریکہ کی اقتصادی اور خارجہ امور پر پالیسیاں ایسے معاملات ہیں جن کی تبدیلی آسٹریلیا پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے آسٹریلیا کی امریکہ کے انتخابی نتائیج پر گہری نظر ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی ڈیلاور یونیورسٹی کے پروفیسرسلیم علی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ کے بہت سے شہروں میں بزنس اور دکانوں پر توڑ پھوڑ سے بچنے کے لئے بورڈ لگائے گئےہیں اور پچھلے کچھ مہینوں میں اسلحے کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ بھی ہوا ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا امریکی حکام اور پولیس نے پچھلے واقعات سے سبق سیکھا ہے اور اس کے باوجود کہ لوگوں میں خوف ہے مگر بڑے پیمانے کی ہنگامہ آرائی یا سول وار کا خطرہ نہیں ہے کیونکہ وفاقی ایجنسیاں گڑ بڑ کرنے والے گروہوں پر نظر رکھ رہی ہیں۔
ڈاکٹر ذاہد شہاب نے کہا کہ امریکی انتخابات کا افغان مسئلے سے اہم تعلق ہے کیونکہ قیادتی تبدیلی سے افغان پالیسی پر بھی اثر پڑے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں پروفیسر سمینہ یاسمین نے اتفاق کیا کہ ان انتخابات پر مسلمان ممالک، بھارت اور پاکستان میں بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے کونکہ مسئلہ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر ٹرمپ کی پالیسوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر زاہد نے مسئلہ کشمیر پر بھی ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ۔یشکش پر منفی بھارتی ردِعمل کے باوجود بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں چین سے مشترکہ مخالفت کے باعث گرمجوشی آئی ہے۔
ٹاک بیک میں حصہ لینے والے سامعین نے مختلف وجوہات کے باعث بائیڈن اور ٹرمپ کے بارے میں ملی جلی رائے کا اظہار کیا۔
امریکی سیاست میں مسلمانوں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم علی نے کہا کہ گرچہ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے مگر پھر بھی اسلام ملک میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور مسلمانوں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔گرچہ اس وقت مسلم ووٹ کا اثر بہت ذیادہ نہیں مگرآنے والے سالوں میں مسلم ووٹ کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر ذاہد شہاب نے کہا کہ پاکستان کو مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ پائیدار تعلقات کے لئے افغان امن کے علاوہ مشترکہ تجارتی اہداف تلاش کرنا ہوں گے۔

Urdu Talkback Source: SBS URDU
پروفیسر سمینہ یاسمین نے کہا کہ جو بائیڈن کے آنے سے چین پر تجارتی پالیسی پر آسٹریلیا کا رویہ بھی نرم ہو سکتا ہے کیونکہ فارمرز کی طرف سے حکومت پر چین کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے آسٹریلین حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور کووڈ ۱۹ کے باعث آسٹریلیا اس وقت چین کے ساتھ بڑی تجارتی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پروفیسر سلیم علی امریکہ کے ڈیلاور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ اس سے قبل آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ۔انہوں نےمیسی چیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سے ڈاکٹریٹ کیا ہے۔
پروفیسر ثمینہ یاسمین یونیورسٹی آف ویسٹرین آسٹریلیا (پرتھ) کے اسکول آف سوشل سائنسز کی اکیڈمک اور محقق ہیں ، اور یونیورسٹی کے سنٹر فور مسلم اسٹیٹس اینڈ سوسائٹیز کی ڈائریکٹر ہیں۔

Source: Dr Saleem H Ali

Source: Professor Samina Yasmeen
ڈاکٹر زاہد شہاب احمد الفریڈ ڈیکن انسٹی ٹیوٹ ، فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ایجوکیشن کے میلبورن کیمپس میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی تحقیقی توجہ جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطی میں امن اور سلامتی پر مرکوز ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ان کا خاص موضوع ہے ۔

Source: Dr Zahid Shahab