جاپان میں سال نو کے روز آئے شدید زلزلے کے متاثرین ایک ہفتے بعد بھی بربادی سے نکنلے کی تگ و دو میں ہیں ۔ مقامی امدادی کارکنان کےساتھ پاکستانی رضاکار بھی ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ پاکستانی نژاد انیس رئیس ہیومنٹی فرسٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور دیگر امدادی اشیا کی تقسیم پر مامور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ کسی بھی تفریق کے قائل نہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں اس شدید موسم میں متاثرین کو خوراک فراہم کرسکیں۔
انیس کے بقول وہ اور ان کے ساتھی شدید سردی میں ہر روز لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور ٹھنڈی راتیں اپنی گاڑیوں میں گزارتے ہیں۔
جاپان کے واجیما علاقے کے رہائشی سب سے پہلے متاثر ہونے والوں میں شامل تھے جہاں زلزلے کے باعث بجلی اور پانی کا نظام بھی منقطع ہوگیا۔ اب یہاں شدید سردی اور بیماریوں کے پھیلاو کے خدشات خاصے بڑھ گئے ہیں۔
جاپانی امدادی ٹیمیں اب بھی ملبے تلےممکنہ طور پر دبے رہنے والے افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔
7 اعشاریہ 6 کی شدت سے آنے والے زلزلے نے نوٹو جزیرہ نما خطے میں مکانات کو زمین بوس کردیا مگر واجیما علاقہ اس بھیانک زلزلے کا مرکز تھا۔
مچھیروں کی اس بستی کا ایک کونا بالکل کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتا ہے جہاں زلزلے کے بعد اچانک بھڑک اٹھنے والے آگ نے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا۔
ایک ہفتے بعد بھی یہاں درجنوں پولیس افسران دن رات زلزلے کے ملبے میں سے ان چار افراد کی لاشیں تلاش کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر اپنی جانیں گنواں چکے ہیں۔ اس بچاو اور امداد کی ٹیم کے سربراہ 59 سالہ میاگی پریفیکچر ایبیتا ہیں۔ ان کے بقول انہیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ اس ملبے تلے دب چکے ہیں۔
تھکاوٹ اور پریشانی میں گھری امدادی ٹیموں کو بالآخر مبلے تلے دبی لاشیں مل گئیں۔
جناب ایبیتا کے بقول ان لاشوں کا ملنا مرنے والوں کے لواحقین کے لیے خاصا ضروری ہے۔
ایک ہفتہ گزرنے کے بعد واجیما کا علاقہ کسی بھیانک فلم میں تباہ حال علاقے کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ ہر طرف امدادی ہیلی کاپٹرز کی صدا، لرزتے در و دیوار کی آوازیں اور بھیانک خاموشی۔
ایس بی ایس نے متاثرہ علاقے میں ایک شخص رویوزو کیٹانو سے بات کی جو اپنے تباہ حال گھر سے بچے کچے سامان کو نکال رہا تھا۔ اس کا گھر منہدم تو نہیں ہوا تھا البتہ اس میں شدید شگافیں پڑ چکی تھیں جو کسی بھی وقت اس کی تباہی کا سبب بن سکتی تھیں۔ اس کے گھر میں آویزاں گھڑیاں ٹھیک چار بج کر دس منٹ شام پر ساکت ہوچکاتھا ۔ وہ وقت جب بھیانک زلزلے نے تمام علاقےکو جھنجوڑ ڈالا تھا۔
رویوزو کہتے ہیں کہ وہ اور ان کی شریک حیات خوش قسمتی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
اس جزیرہ نما میں پہلے شدید زلزلے کے بعد سینکڑوں چھوٹے زلزلے بھی آے جس باعث لوگ ایک مسلسل خوف اور پریشانی کے عالم میں روز و شب بسر کر رہے ہیں۔
رویوزو کے والدین خاصے عمر رسیدہ ہیں اور اس قابل نہیں کہ ملبلے میں سے ضروری اشیا کی تلاش میں مدد کرسکیں۔ وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ضروری اشیا نکالنے میں گلے ہوے ہیں اس سے قبل کہ مزید آپٹرشاکس آئیں اور وہ کسی پریشانی میں گھر جائے۔
زلزلے نے سڑکوں کے نظام کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح صاف پانی اور کھانے پینےکی بھی شدید قلت ہے۔
جاپان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے، لیکن حکومتی کوششوں کی رفتار پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔
تباہی کے ایک ہفتے بعد بھی ہزاروں لوگ پانی اور بجلی کے بغیر رہ رہے ہیں، جس سے بیماری اور سردی کے خطرے کے خدشات جنم بڑھ رہے ہیں۔
ایس بی ایس نیوز نے وجیما اور ناناؤ شہروں میں متعدد انخلاء مراکز کا دورہ کیا، سینکڑوں لوگوں کو فرش پر سوتے ہوئے دیکھا جہاں پانی نہیں تھا اور صرف محدود تعداد میں پورٹیبل بیت الخلاء تک لوگوں کی رسائی تھی۔
پینسٹھ سالہ ہساکی ناکانو نانو کے ایک پرائمری اسکول میں سوئے ہوئے تقریباً 200 افراد میں شامل تھے۔ وہ اس خوف سے واپس نہیں جارہے کہ مزید جھٹکے آ سکتے ہیں۔
____________
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: