اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شام میں دروز اقلیت کے تحفظ کے لیے حملے کر رہا ہے، لیکن اسرائیل سے باہر رہنے والے بیشتر دروز اس دعوے کو چیلنج کرتے ہیں۔اتوار کے روز جنوبی شام میں دروز مذہبی اقلیت اور بدو قبائل کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد شامی فوج نے مداخلت کی۔اس کے ردعمل میں اسرائیل نے دمشق سمیت مختلف شامی علاقوں پر فضائی حملے کیے۔اسرائیل کے اس دعوے کو کہ وہ دروز کے تحفظ کے لیے شام پر حملے کر رہا ہے، اسرائیل سے باہر کے بیشتر دروز مسترد کرتے ہیں۔
دروز کون ہیں؟
دروز ایک مذہبی اقلیت ہے جس کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے، جو شام، لبنان، اردن اور اسرائیل میں آباد ہے۔
یہ مذہب گیارہویں صدی میں مصر سے ابھرا اور اسلام کی ایک شاخ پر مبنی ہے، تاہم زیادہ تر دروز خود کو مسلمان نہیں کہتے۔
شام میں دروز کی سب سے بڑی آبادی ہے، جو جنوبی علاقے السویدا اور اسرائیل کے زیر قبضہ جولان کی پہاڑیوں کے قریب رہتی ہے۔جولان کی پہاڑیاں 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام سے قبضے میں لے لی تھیں۔
اسرائیل میں بھی دروز کی ایک بڑی آبادی ہے، جو تقریباً 1,40,000 نفوس پر مشتمل ہے، زیادہ تر شمالی علاقوں میں آباد ہے۔
دیگر عرب اسرائیلیوں کے برعکس، کچھ دروز اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
1957 سے 18 سال سے زائد عمر کے دروز مردوں کو لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیا جاتا ہے، اور وہ اکثر اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں، نیز پولیس اور سیکیورٹی فورسز میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔
جولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 20,000 دروز آباد ہیں، جن کے ساتھ 25,000 یہودی آباد کار بھی موجود ہیں۔
تاہم، جولان میں آباد دروز کی اکثریت خود کو شامی شہری سمجھتی ہے، اور صرف تقریباً 1,600 نے اسرائیلی شہریت اختیار کی ہے۔
اسرائیل دروز کا تحفظ کیوں چاہتا ہے؟
شام میں بشارالاسد حکومت کے زوال کے بعد دروز ملیشیاؤں اور حکومتی فورسز کے درمیان کشیدگی کی خبریں سامنے آئیں۔
اسلام پسند قوتوں اور شامی اقلیتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں، اور حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہی۔
تاہم شام میں موجود دروز اسرائیلی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں۔
مزید جانئے

اسرائیل فلسطین تنازعہ: ایک مختصر تاریخ
دروز کی اکثریت بنیادی طور پر لبنان، شام، اسرائیل اور اُردن میں آباد ہیں جبکہ دیگر ممالک میں بھی ان کی کچھ تعداد موجود ہیں۔ اس فرقے کے تقریباً 10 لاکھ پیروکاروں میں سے نصف شام میں رہتے ہیں، جہاں وہ آبادی کا تقریباً تین فیصد ہیں۔
اسرائیل میں دروز کمیونٹی کو زیادہ تر ریاست کا وفادار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ارکان فوجی خدمات میں حصہ لیتے ہیں۔ اسرائیل اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 152,000 دروز آباد ہیں۔

Druze families wave to their relatives fleeing sectarian violence in Damascus, upon arrival in the buffer zone across the ceasefire line near the village of Majdal Shams in the Golan Heights. Source: EPA / Atef Safadi
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی مداخلت دروز اقلیت کے ساتھ تزویراتی مفادات سے بھی جڑی ہو سکتی ہے، جیسے کہ شام کو وفاقی طرز حکومت کی طرف لے جانا۔شام کی حکومت نے بدھ کو السویدا میں جنگ بندی اور فوجی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا، اور کہا کہ فوج نے دروز اکثریتی شہر سے انخلا شروع کر دیا ہے۔
_____