آسٹریلیا آ کر اس ملک کو اپنا دیس بنانے والے نوجوان جب یہاں شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہیں تو ان کو کئی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اس سلسلے میں جب ہم نے نوجوانوں سے گفتگو کی تو انہوں نے ان تمام مسائل کو زیر بحث لانے کی کوشش کی جو شادی کے معاملات کے حوالے ان کو در پیش آئے ۔
میلبرن میں بطور طالبعلم آنے اور پھر مستقل ویزہ حاصل کر کے یہیں سکونت اختیار کرنے والے حسن الامآب سید کا شمار بھی ایسے نوجوانوں میں ہوتا ہے ۔ 28 سالہ حسن الامآب ایک آٹی پروفیشنل ہیں ۔شادی میں پیش آئی مشکلات کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس ملک میں بنا پی آر کے شادی ایک مشکل بات ہے انکے مطابق پاکستان اور آسٹریلیا دونوں ملکوں میں ہی سے متعلق سوال سب سے پہلے کیا جاتا ہے دوسری جانب انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں مستقل قیام کے فیصلے کے بعد یہاں اپنی اہلیہ کو لانے کا جو طریقہ کار ہے وہ کافی لمبا ہے ۔
دوسری جانب تسمانیہ میں مقیم سید سمیر علی کے نزدیک اپنے شعبے سے متعلق روزگار نہ ہونا بھی رشتہ نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ ان سے سب سے پہلا سوال ان کی اپنے شعبے میں نوکری سے متعلق کرتے ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا میں مینٹیلیٹی کا فرق ہے اور لوگ اوبر ، ٹیکسی یا سکیورٹی جیسی ملازمتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے جبکہ دوسری جانب یہاں آنے والے نو جوان ہر کام کو روزگار سمجھ کر کرتے ہیں
آسٹریلیا میں ریتے ہوئے ترجیحات میں تبدیلی کے حوالے سے کئے گئے سوال پو سمیر نے تعلیم یافتہ لرکی کو اپنی ترجیح قرار دیا
میری ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے تھوڑی بہت ، جو پہلے بھی تھی کہ لڑکی کم از کم بیچلرز یا ماسٹرز ہو اور اگر جاب کر سکتی ہے تو وہ جاب بھی کرے
حسن الا مآب سید نے ترجیحات سے متعلق گفتگو میں کہا کہ بیک گراونڈ تبدیل ہونے سے ترجیحات تبدیل ہوتی ہیں انکا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں پاکستانی اقدار نہیں بھولنی چاہیں لیکن ماحول کی تبدیلی بہرحال سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب میں ایک ایسی شریک حیات چاہتا ہوں جس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو
رشتے کے حوالے سے اب تک کس طرح کے لوگون سے سابقہ پڑا ہے اس سوال کے جواب میں سمیر کا کہنا تھا کی کچھ والدین لڑکیوں کو بیرونِ ملک نہیں بھیجنا چاہتے۔
آج کا دور ایسا ہے کہ لوگ اپنی بیٹی باہر دینے سے ڈرتے ہیں ۔لوگ نہیں چاہتے کہ انکی بیٹیاں باہر جائیں
" لوگ اپنی بیٹیوں کو یا تو اپنے سامنے رکھنا چاہتے ہیں یا پھر نزدیکی ممالک میں بھجنے کو ترجیح دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ چاہے کم کما لو لیکن ہماری نظر کے سامنے رہو "
دوسری جانب جب آسٹریلیا میں موجود لڑکیون سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے کہا کہ انکے والدین کشمکش میں ہیں کہ کوئی لالچ کے تحت ان کا ہاتھ نہ تھام لے ۔ اپنی ذاتی وجوہات کے باعث شناخت نہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگ عمومی طور پر آسٹریلیا میں رہائش کے باعث ہم سے شادی کے خواہاں ہوتے اور کسی کی نیت کے حولے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔