دنیا بھر میں تقریباٌ ساڑھے چارکروڑ افراد یاداشت کی خرابی کے ناقابلِ علاج امراض جن میں الزائیمر اور ڈائیمینشیا شامل ہیں، ان سے متاثر ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دنیا میں آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے تحقیق دانوں نے ایک ایسی چِپ تیار کی ہے جو دماغ کے خلیوں کے بنیادی کاموں کی طرح کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس ریسرچ کے ذریعے یاداشت کو محفوظ اور یاداشت کے عمل کی بیماریوں کے علاج میں آگے بڑھا جاسکے گا۔
اس الیکٹرانک چِپ کی ایجاد کرنے والی ٹیم کے ریسرچر تیمور احمد کا کہنا ہے کہ چپ کے بارے میں جاننے سے پہلے ہمیں دماغ کو سمجھنا ضروری ہے۔
" اگر ہم دماغ کی ساخت کو دیکھیں تو اس میں تقریباٌ ایک سو ارب خلیئے پائے جاتے ہیں۔ ان خلیوں کو ہم نیورن کہتے ہیں۔
ایک نیورون اپنے قریبی نیورون سے رابطہ (کنکشن) کرتا ہے جو الیکٹریکل پلز کی شکل میں بنتے ہیں۔
جب یہ کنکشن بنتا ہے تو یہ ایک یاداشت بنتی ہے۔ وقت کے ساتھ یا اور وجوہات کی بنا پر جب یہ کنکشن کمزور پڑتا ہے تو ہم وہ یاداشت بھول جاتے ہیں۔
اور یہی عمل ہم نے ایک چِپ پر کاپی کیا ہے۔
جب ہم چِپ پر مختلف رنگوں کی روشنی ڈالتے ہیں تو یہ اسی طرح کام کرتی ہیں جیسا کہ دماغ کے خلیئے کرتے ہیں۔

انسانی دماغ Source: iStockphoto
اس چِپ کے ذریعے ہم ایک واقعے کو محفوظ کراسکتے ہیں اور اسی طرح ایک واقعے کو اپنی مرضی سے اپنی یادداشت بھلوا بھی سکتے ہیں۔
چپ ایک روشنی سے حساس مواد سے بنائی گئی ہے جو بلیک فاسفورس کہلاتا ہے۔
روشنی کے مختلف رنگوں کے ذریعے ہم یاداشت کو محفوظ یا بھلوا سکتے ہیں۔ "
تیمور احمد کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ ٹیم میں دس سے زائد افراد ہیں جن کا تعلق نا صرف آسٹریلیا بلکہ امریکہ سے بھی کچھ ریسرچر ٹیم میں شامل ہیں۔
تیمور احمد کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ یاداشت کے اوپر مبنی ہے۔
"لیپ ٹاپ اور موبائل میں میموری چِپس لگی ہوتی ہیں ان کو کیسے بہتر بنایا جاسکے۔
میرا پی ایچ ڈی بھی اسی پر ہے۔ لیکن ریسرچ کے دوران جب مجھے پتا چلے کہ روشنی کے ذریعے ہم نیورون کو کاپی کرسکتے ہیں، تب میرا دھیان اس طرف زیادہ بڑھنے لگا۔"
دوسری جانب تیمور احمد کا کہنا ہے کہ اس چپ کو ابھی کمرشل ہونے میں کئی عوامل سے گزرنا ہے۔
"اس چِپ کے کامیابی سے کام کرنے کے باوجود تیمور احمد کا کہنا ہے کہ اس چِپ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا حصہ بننے میں کافی وقت درکار ہے۔"
مزید پڑھیئے
مزید جانئے

آسٹریلیا میں عارضی مائگریشن ۔ چند حقائق