آج آپ کی ملاقات کروا رہے ہیں ملک کے دیہی علاقے گڈاپ سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے باصلاحیت نوجوان سے جس کا قد تو ڈھائی فٹ ہے لیکن اس کے حوصلے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
گورنر ہائوس سندھ میں منعقدہ آئی ٹی ٹیسٹ میں ہزاروں نوجوان افراد آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، ویب تھری پوائنٹ او اور میٹا ورس کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے آئے تھے۔ اس دوران ہماری نظر پڑی 2 فٹ 5 انچ قد کے محمد شاہد پر جو دیکھنے میں انتہائی پُراعتماد لگے۔

کہتے ہیں زندگی کے ہر موڑ پر مشکلات دیکھی ہیں، ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں معمولی کاموں کیلیے بھی سفارش کلچر عام ہے ، کہیں بھی معذور افراد کو ان کا حق نہیں دیا جاتا ، گورنر ہائوس میں آئی ٹی ٹیسٹ دینے آیا ہوں تاکہ آن لائن دنیا میں اپنے ٹیلنٹ سے کچھ کما سکوں.
محمد شاہد کے مطابق زندگی میں بے شمار مشکلات دیکھیں، قد چھوٹا ہونے کے باعث ہر جگہ سخت جملے سننے کو ملے لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری
شاہد کے مطابق گڈاپ کے دیہات میں جدید تعلیم سے متعلق آن لائن کورسز کی کوئی سہولت موجود نہیں ، بنیادی تعلیم حاصل کرنے کیلیے گاؤں سے23 کلو میٹر دور اسکول جانا پڑتا تھا۔ شاہد کا کہنا ہے کہ پڑھائی کا بے انتہا شوق تھا لیکن گھر میں غربت تھی ، یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کیلیے بھی درکار رقم موجود نہیں تھی، رشتہ داروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون سے اپنی تعلیم کو جاری رکھا ہے۔
شاہد کہتے ہیں زندگی میں جو مشکلات برداشت کی ہیں اب خواہش ہے گائوں والے ان مشکلات کا سامنا نہ کریں، اپنے گاؤں کے لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش ہے۔
چھوٹے قد کے حامل شاہد کے مطابق ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے باعث انھیں کہا گیا کہ وہ ان ہاتھوں سے ٹائپنگ نہیں کرسکتے لیکن انھوں نے اپنے پہلے ہی آن لائن کورس میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ پہلی پوزیشن بھی اپنے نام کی۔
محمد شاہد کو بھی دیگر معذور افراد کی طرح سرکاری ملازمت کے حصول کیلیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ لیکن اب کوئی کوئی کامیابی نہیں ملی۔ شاہد نے دعویٰ کیا کہ معذوروں کے کوٹے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا، سرکاری ملازمت صرف اور صرف سفارش کی بنیاد پر ملتی ہے۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی جانب سے مفت آئی ٹی کورسز کرانے کے لیے انٹری ٹیسٹ لئے جا رہے ہیں۔ اب تک پانچ لاکھ طلبہ نے رجسٹریشن کرائی ہے۔ انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو لاکھوں روپے مالیت کے آن لائن کورسز مفت میں کرائے جائیں گے۔ جس کے بعد یہی طلبہ آن لائن کام کر کے ہزاروں ڈالر کما سکتے ہیں۔

فریئر ہال پر نکالی گئی اس ریلی میں سول سوسائٹی، خواجہ سرائوں اور ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز سمیت بڑی تعداد میں نوجوان مرد و خواتین نے شرکت کی اور ماحول بچاؤ، فوسل فیول نہیں، ماحول دوست ایندھن کے نعرے لگائے۔
اگر ہم تھوڑا ماضی میں جائیں تو آپ کو یاد ہو گا کہ سال 2015 میں ہونے والے تاریخی پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان سمیت تمام ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کے پابند ہیں۔ پاکستان جس کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن دنیا بھر میں ہونے والے کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
کراچی میں نکالی جانے والی اس ماحولیاتی مارچ کے شرکا بھی ان بڑھتے ہوئے مسائل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ ریلی میں شریک ایک خاتون کے مطابق پاکستان اس وقت سب سے زیادہ ماحولیاتی بگاڑ سے متاثرہ ملک ہے۔

شرکا کے مطابق بغیر کسی پلاننگ کے زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں جس سے نہ صرف انسان بلکہ جانور اور پرندے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کیا پاکستان اس وقت دنیا کا چوتھا آلودہ ترین ملک بن گیا ہے، ہمیں اپنے ملک پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔
ریلی کے شرکا نے کوئلے کے بے دریغ استعمال پر اپنے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان کی فضا میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مارچ میں شریک ہونے والوں نے آئندہ نسلوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہنگامی بنیادوں پر شجر کاری کو فروغ ، نوائز پولیوشن کیخلاف آگاہی، پلاسٹک کے استعمال کیخلاف قانون سازی، صاف پانی کے ہر شہری تک حصول سمیت دیگر اقدامات کرے اور قدرتی ماحول کو متاثر کرنے والے افراد اور اداروں کیخلاف کارروائی کرے۔
بشکریہ: احسان خان۔ پاکستان