رواں ہفتے ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 2018 کی شادی کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے انہیں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔
میلبورن میں بسنے والے عقیل شاہ نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ پاکستانی سیاسی منظرنامے میں انتقام اور اسٹیبلیشمنٹ کے انتہائی گہری چھاپ نے ہمیشہ سے ہی جمہوری عمل کو متاثر کیے رکھا ہے اور اب بھی وہی ہورہا ہے۔
عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر زلفی بخاری نے رائٹرز نیوز کو بتایا کہ "میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نکاح میں گواہ تھا اور یہ واضح طور پر ایک اور جعلی کیس ہے۔"
عقیل شاہ کے بقول فوری طور پر اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے ایک تدریجی عمل کے ذریعے جمہوریت کو مستحکم کریں۔
آسٹریلیا میں شعبہ تعلیم سے وابستہ فرح کیانی کے بقول پاکستان میں نوجوان ووٹرز بہتر اور جمہوری مستقبل کے لیے ایک بڑی امید ہیں۔
جمعرات 8 فروری کے عام انتخابات پاکستان کے 16 ویں انتخابات ہیں.
محتاط اندازوں کے مطابق لگ بھگ 128 ملین افراد ان انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 336 اور صوبائی اسمبلیوں کی 749 نشستوں کے لیے 18 ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔
آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی طاہر ملک کے بقول جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور میڈیا کی کوریج اس بات کو یقنی بناتے ہیں کہ انتخابی عمل کے دوران کم از کم دھاندلی نہ ہو۔
71 سالہ عمران خان کو حالیہ دنوں میں ریاستی راز افشا کرنے پر 10 سال اور اپنی اہلیہ کے ساتھ غیر قانونی طور پر سرکاری تحائف فروخت کرنے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ تینوں مقدمات میں اپیلیں دائر کریں گے۔ عمران خان راولپنڈی شہر کی جیل میں ہیں، جب کہ ان کی اہلیہ اسلام آباد کے قریب واقع ان کی نجی گھر میں اپنی سزا کاٹیں گی۔عمران خان کو پہلے ہی عوامی عہدہ رکھنے سے 10 سال کی نااہلی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی برطرفی کو طاقتور فوج کی حمایت حاصل تھی ۔
عمران خان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ انہیں فوج کی حمایت یافتہ کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس میں سینکڑوں حامیوں، پارٹی کے ارکان اور اہم معاونین کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔فوج، جس نے پاکستان کی سیاست پر کئی دہائیوں سے قبضہ جما رکھا ہے، ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔